اسلام آباد (ویب ڈیسک): پنجاب، خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے۔جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے 5 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کررہا ہے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی اور عرفان قادر کمرہ عدالت میں موجود ہیں، علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل علی ظفر، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، سیکٹری دفاع، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور ڈپٹی سیکریٹری داخلہ بھی عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت کے آغاز پر فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ میں نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کیسے ایک طرف بائیکاٹ اور دوسری طرف سماعت کا حصہ بھی بن رہے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بینچ کے دائرہ اختیار پر تحفظات ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ 48 گھنٹے سے میڈیا کہہ رہا ہے کہ اعلامیہ کے مطابق سیاسی جماعتیں بینچ پر عدم اعتماد کر رہی ہیں، ہم پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں، اگر اعلامیہ واپس لیا ہے تو آپ کو سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ کارروائی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ جی کارروائی کا حصہ ہیں، ہم نے تو بائیکاٹ کیا ہی نہیں تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اخبار میں تو کچھ اور لکھا تھا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ ایک طرف بینچ پر اعتراض کرتے ہیں دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو عدالتی کاروائی کا حصہ نہ بنیں، بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں۔اس پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وکالت نامہ واپس لینے تک وکیل دلائل دے سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وکالت نامہ دینے والوں نے ہی عدم اعتماد کیا ہے، اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ وکیلوں کا عدالت آنا ہی اعتماد ظاہر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، فیصلے میں عدالت نے پنجاب کے لیے صدر اور خیبرپختونخوا کے لیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا، گورنر خیبرپختونخوا کے نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کرر ہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے راؤنڈ میں 9 رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، 2 ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں، 2 ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک جج نے درخواست خارج کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے شاید نوٹ میں درخواست خارج کرنے کا نہیں لکھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس اطہر من اللہ سے اتفاق کیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ نظر سمجھ گئے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ کتنے رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔
اس دوران عرفان قادر نے اٹارنی جنرل کے کان میں لقمہ دیا تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟ عرفان قادر نے کہا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس پہلے والے اراکین شامل کرنے کے پابند نہیں تھے، جس عدالتی فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ اقلیتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کو بھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں پانچ رکنی بینچ بنا نہیں تھا، ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کے لیے بہت اہم ہے، ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں، عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے لیکن ججز کی مشاورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے ازسرنو تشکیل کا نقطہ شامل نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی اقدام تھا، نوٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے سماعت سے معذرت کی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹ کے مطابق چار ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا، بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4 ججز کو بینچ سے نکالا گیا، 9 رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے،۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ازسرنو تشکیل میں تمام پانچ نئے ججز آجاتے تو کیا ہوتا؟ کیا نیا بینچ پرانے دو ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟ نیا بینچ تشکیل دینا انتظامی نہیں جوڈیشل حکم تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 2 ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں،کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 4 آرا کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں، اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے، اگلے نقطے پر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ دو ججز کی اراء ریکارڈ کا حصہ فیصلہ کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں، اس پر جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ نوٹ کرلیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے، سرکلر جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے کیں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں،184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، سرکلر میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں، ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ مناسب ہوگا کہ 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے، 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی ہے، عوام کے مفادات میں مقدمات پر فیصلے ہونا ہیں ناں کہ سماعت موخر کرنے سے، فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کےہر مقدمےمیں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہےجس کے رولز بنےہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا زکر ہے، موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے، رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کاروائی کیسے موخر کریں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نےرواں سال میں پہلا سوموٹو نوٹس لیا تھا، دو اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں، اسپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے، ازخود نوٹس کے لیے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا، ازخودنوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے، اس بات سے متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے، جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کاروائی روک دیں؟ 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہوچکی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہوسکتی ہے یا نہیں، آپ کا مؤقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیسے ہوسکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مقدمہ سنیں؟ جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے، سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا، سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا، یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے، تمام 15 ججز مختلف آرا اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے، آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعاء نہیں کی، آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا فل لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔
دریں اثنا سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی ہے جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، تین رکنی بینچ متبادل کے طور پر تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت نہ کرئے، جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی درخواست مؤخر کی جائے۔
متفرق درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے جو ججز الیکشن کیس کو سن چکے ہیں انہیں نکال کر باقی ججز پر مشمتل بینچ بنایا جائے، جسٹس اعجاز الاحسن پہلے راؤنڈ میں الیکشن کا کیس سننے سے انکار کرچکے ہیں، پہلے راؤنڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ چار تین اکژیت سے دیا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، یہ دونوں بھی اس کیس کو نہ سنیں۔
دریں اثنا سماعت کے آغاز سے قبل پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج میں سب سے پہلے چیف جسٹس سے استدعا کروں گا کہ پہلے اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر ہمیں سنا جائے، اس کے بعد میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے کہتا ہے کہ عدالتی کارروائی اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک تمام فریقین کو سنا نہیں جائے گا۔