دنیا بھر میں معاشی صورت حال بگڑنے کے بعد امریکی بینک بھی بڑے پیمانے پر نوکریاں ختم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ امریکی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق سرمایہ کاری میں کمی کے بعد بینکوں کے اعلیٰ افسران پر اخراجات میں کمی لانے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہے۔
بینکوں کی اس فیصلے کی بعد ہزاروں ایسے افراد ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے جنہیں حالیہ برسوں میں ہایئر کیا گیا تھا۔اس لہر کی زد میں وہ ملازمین بھی آئیں گے جو کورونا کی وبا کے دوران نوکری سے نہیں نکالے گئے تھے۔
مالیاتی سروسز کی فرم ’سلور مائن پارٹنرز‘ کے مالک لی ٹھاکر نے کہا کہ ملازمتوں میں کمی لانے کا عمل انتہائی سخت گیری پر مبنی ہو گا۔ یہ ایک ری سیٹ ہے کیونکہ انہوں نے پچھلے دو سے تین برسوں میں ضرورت سے زیادہ افراد کو بھرتی کیا ہے۔‘
کریڈٹ سوئس، گولڈمین سیکس، مورگن سٹینلے اور بینک آف نیویارک میلن سمیت کئی بینکوں نے حالیہ مہینوں میں 15 ہزار سے زیادہ ملازمتوں میں کمی کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ بینکنگ سیکٹر پر نظر رکھنے والے ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ مزید بینک بھی اسی طرح کے فیصلے کریں گے۔
انویسٹمنٹ بینکنگ کمپنی ’بروئیٹ اینڈ ووڈز‘ کے تجزیہ کار تھامس ہالیٹ نے کہا ہے کہ ’ہم نے امریکہ کی جانب سے کچھ انتباہی جھٹکوں کا مشاہدہ کیا ہے۔‘
’سرمایہ کاروں کو اخراجات اور منافعے کی ایک معقول سطح کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عموماً یورپ کے بینک امریکی بینکوں کی پیروی کرتے ہیں۔‘موڈیز میں عالمی بینکنگ کی شریک سربراہ آنا ارسوو نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ملازمتوں میں کمی کا یہ مرحلہ مالیاتی بحران کے مقابلے میں زیادہ شدید نہیں ہو گا لیکن سنہ 2000 کے ڈاٹ کام کے کریش کر جانے کے بعد مارکیٹ پر پڑنے والے اثرات سے زیادہ شدید ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم لگتا ہے کہ عام بینکوں میں ملازمین کی چھانٹیاں ہوں گی جو پچھلے چند برسوں میں موقوف کر دی گئی تھیں۔‘
’ہم یورپی فرنچائزز میں کمی ہوتی دیکھیں گے لیکن اس کا حجم اتنا بڑا نہیں ہو گا جتنا کہ مریکی بینکوں میں چھانٹیوں کا ہو گا۔‘