ایکشن اور افسانوی فلم RRR کو انڈیا کے سینما گھروں میں ریلیز ہوئے 10 ماہ ہو چکے ہیں، لیکن اس کے بارے میں ہونے والی بحث ختم نہیں ہوئی۔ یہ فلم ہالی ووڈ میں بھی مقبول ہے اور اس لیے مغربی میڈیائی اداروں کو تجسس ہے کہ اس فلم میں ایسا کیا ہے جس نے دنیا بھر کے ناظرین کو مسحور کر رکھا ہے۔
ڈائریکٹر ایس ایس راجامولی کا کہنا ہے کہ انھوں نے RRR بنیادی طور پر انڈیا اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے انڈینز کے لیے بنائی ہے۔ فلم میں تیلگو اداکار رام چرن اور جونیئر این ٹی آر شامل ہیں، اور اس میں برطانوی حکمرانی دورِ حکومت کے خلاف لڑنے والے دو حقیقی انقلابیوں کی کہانی بیان کی ہے۔
فلم نے عالمی سطح پر 12 بلین روپے (146.5 ملین ڈالر یا 120 ملین پاؤنڈ) سے زیادہ کی کمائی کی ہے، نیٹ فلکس یو ایس پر کئی ہفتے ٹاپ 10 میں رہی ہے اور اب جاپان میں باکس آفس کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔
بشمول برٹش فلم انسٹی ٹیوٹ اور امریکہ میں نیشنل بورڈ آف ریویو کے علاوہ اسے 2022 کی بہترین فلموں کی کئی فہرستوں میں شامل کیا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے فلم کے ایک گانے ناتو ناتو نے بہترین گانے کا گولڈن گلوب ایوارڈ جیتا ہے۔ اس ہفتے، گانے اور فلم دونوں نے لاس اینجلس میں ناقدین کے چوائس ایوارڈز میں بڑی کامیابی حاصل کی۔
بی بی سی کلچر کے فلمی نقاد نکولس باربر اور کیرین جیمز نے اسے 2022 کی اپنی 20 ٹاپ فلموں میں شامل کیا ہے۔
فلم کی عالمی پذیرائی پر راجامولی کی خوشی ان کے بہت سے انٹرویوز میں نظر آتی ہے۔
انھوں نے حال ہی میں امریکی ٹاک شو لیٹ نائٹ ود سیٹھ میئرز میں ازراہِ مذاق کہا ’جب ہمیں مغرب سے تعریفیں ملنا شروع ہوئیں تو ہم نے سوچا، ‘یہ لوگ ان انڈینز کے دوست ہوں گے جو فلم دیکھنے گئے تھے۔‘
نیویارک میں فلم ناقدین سرکل (جس نے دسمبر میں راجامولی کو بہترین ہدایت کار کے طور پر منتخب کیا تھا) کے رکن سدھانت ادلاکھا کا کہنا ہے کہ جب RRR پہلی بار امریکہ میں ریلیز ہوئی تو یہ دیگر مرکزی دھارے کی انڈین فلموں سے مختلف نہیں تھی۔
سدھانت ادلاکھا کا کہنا ہے کہ ’پہلے ویک اینڈ پر زیادہ ترانڈین ہی اسے دیکھنے آئے۔ لیکن چند ہفتوں میں صورتحال مکمل طور پر بدل گئی۔‘
جوق در جوق شائقین اسے دیکھنے تھیٹروں میں جمع ہوئے، ناقدین نے ریویوز لکھے اور ہالی ووڈ کے ہدایت کاروں جن میں انتھونی اور جو روسو، ایڈگر رائٹ، سکاٹ ڈیرکسن اور جیمز گن وغیرہ شامل ہیں، نے اس کی تعریف کی۔
امریکی ڈسٹری بیوٹرز کا کہنا ہے کہ انھوں نے عوام کے پرجوش ردعمل کو دیکھ کر فلم کی نمائش کی۔
ادلاکھا کہتے ہیں کہ یہ پذیرائی ’حالیہ ریلیز ہونے والی کسی بھی انڈین فلم سے مختلف ہے۔‘
سکریننگ کے دوران بنائی گئی سوشل میڈیا ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ شائقین فلم دیکھتے ہوئے کتنے پُرجوش اور خوش نظر آ رہے ہیں۔ ایسے مناظر انڈین فلموں کے لحاظ سے کم ہی نظر آتے ہیں۔
لاس اینجلس کے مشہور چائینیز تھیٹر میں ڈائریکٹر جے جے ابرامز کی طرف سے منعقدہ سکریننگ کے دوران لوگ ناتو ناتو گانےپر رقص کرنے سٹیج پر پہنچ گئے۔
ادلاکھا کا کہنا ہے کہ ’RRR شائقین اور یہاں تک کہ فلم سازوں کو بھی، ایک مختلف قسم کی فلم دیکھنے کی روایت سے متعارف کروا رہی ہے، جس کے وہ عادی نہیں ہیں،جس کی وجہ سے ہالی ووڈ کے فلم ساز بھی اس کی طرف راغب ہوئے ہیں۔‘
جہاں فلم کی کہانی بتانے کا انداز اور ہدایت کاری و فلم نگاری نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا، وہیں وقت نے بھی اس فلم کی مشہوری میں مدد کی۔
ایک ٹی وی میزبان ایلین لوئی کہتی ہیں، ’RRR ٹاپ پر ہے۔ تھیٹروں سے لے کر نیٹ فلکس اور گھروں تک، یہ وہ فلم ہے جسے لوگ بار بار جا کر دیکھنا چاہ رہے تھے۔‘
اگرچہ RRR آسکر ایوارڈز میں انڈیا کی جانب سے باضابطہ انٹری نہیں ہے، یہ گجراتی زبان کی فلم چیلو شو سے پیچھے رہ گئی ہے لیکن اس فلم کی مقبولیت نے اسے نامزدگی کی دوڑ میں ڈال دیا ہے۔ ہالی وڈ کے کئی ہدایت کار اور مشہور شخصیات اسے ایک ’دھماکے دار فلم‘ قرار دے رہے ہیں۔
ٹریڈ میگزین ورائٹی نے پیش گوئی کی ہے کہ فلم کو بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین سنیماٹوگرافی اور بہترین گانے سمیت کئی زمروں میں نامزد کیا جاسکتا ہے۔
لوئی کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے بین الاقوامی فلم کے زمرے میں RRR کو جمع نہ کروانے کا فیصلہ ہالی ووڈ کے ہیوی ویٹس کے الٹ رہا جس نے کئی لوگوں کو مل بیٹھ کر نوٹس لینے پر مجبور کیا۔‘
لوئی کا کہنا ہے کہ ’فلم سازی میں، ’بز‘ ایک بڑی بات ہے۔ اور RRR روزمرہ گفتگو کا حصہ بن گئی ہے۔‘ ویک اینڈ پر، پارٹیوں میں۔۔۔ ہر کوئی پوچھ رہا ہے ’کیا آپ نے RRR دیکھی؟‘
مغرب میں بہت سے لوگوں کے لیے یہ فلم نئی اور دلچسپ ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں امریکی باکس آفس پر مارول سنیماٹک یونیورس اور فاسٹ اینڈ فیوریس جیسی فرنچائزز کا غلبہ رہا ہے۔
ادلاکھا کا کہنا ہے کہ ’جب بلاک بسٹر فلمیں فیکٹری پروڈکٹس کی طرح لگنے لگیں تو ایک ایسی فلم جو RRR کی طرح خلوص کے ساتھ اور اچھی طرح سے بنائی گئی ہے وہ یقیناً ریکارڈ توڑے گی۔‘
فلم کے شاندار مناظر میں سے ایک وہ ہے جب ہیرو پہلی بار ملتے ہیں، انھیں آگ میں پھنسے ایک بچے کو بچانے سے پہلے ایک گھوڑے اور موٹر سائیکل پر سوار ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ادلاکھا کا کہنا ہے کہ ’امریکی سامعین عام طور پر اس طرح کے مناظر کے عادی نہیں ہیں، لیکن یہ فلم اتنی اچھی طرح سے بنائی گئی ہے کہ کسی بھی ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والا اس سے جڑا محسوس کرتا ہے۔‘