میساچوسیٹس(ٹیک ڈیسک): قوتِ خرید میں کمی اور بے وقعت ٹیکنالوجی والے نئے فیچرز کے سبب لوگ ایسے سیکنڈ ہینڈ فونز خریدنے کی جانب راغب ہو رہے ہیں جن کی قیمت نئے فونز سے کم از کم 300 ڈالرز (80000 روپے) کم ہوتی ہے۔اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں گزشتہ برس 28 کروڑ 30 لاکھ سیکنڈ ہینڈ فون فروخت ہوئے۔ یہ تعداد 2021 کے مقابلے میں 11.5 فی صد زیادہ ہے اور 2026 تک مارکیٹ کی مالیت 99 ارب ڈالرز تک متوقع ہے۔
2020 میں، کورونا وائرز کے آغاز کے دوران، نئے اسمارٹ فونز کی فروخت میں تیزی سے کمی آئی تھی لیکن مسلسل بڑھتی قیمتوں کے سبب صارفین نے فون خریدنے سے گریز کیا۔
انٹرنیشنل ڈیٹا کارپوریشن (آئی ڈی سی) نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکنڈ ہینڈ اسمارٹ فونز کی فروخت میں اضافے کی جزوی وجہ ان میں موجود پروگرامز ہیں۔
اسمارٹ فونز کی فروخت دو سال قبل اس وقت کم ہونا شروع ہوئی جب الیکٹرونک آلات بنانے والوں کو لاک ڈاؤن کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
چین، جو آئی فون کا واحد بنانے والا تھا، نے باقی دنیا سے پہلے لاک ڈاؤن لگانا شروع کیا جس سے ایپل کی پروڈکشن سست روی کا شکار ہوئی۔
تاہم، متعدد صارفین نے غور کیا کہ ہر نیا آئی فون گزشتہ آئی فون سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ اس ہی لیے نئے ماڈل پر پیسے خرچ کرنے کے بجائے انہوں نے موجودہ ماڈل رکھنے یا اپ گریڈ کے لیے استعمال شدہ ماڈل کو خریدنے کو فوقیت دی۔
صارفین کے جیبوں میں اسمارٹ فون کی شکل میں چھوٹے سے کمپیوٹر موجود ہیں اور ہر سال اب یہ فون پرانے ماڈل کی نسبت مزید جدید معلوم نہیں ہوتے ہیں۔