تحریر: مرتضیٰ رفیق بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جو مسلسل چار ادوار سے صوبائی اقتدار پر قابض رہنے میں کامیاب رہی۔ میں صوبائی سیاست کے اندر کے واقعات کا مشاہدہ کرتا رہا ہوں اور کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ایک عام جیالا یا ان کے قائدین دل سے شہادت کو گلے لگانے کی ہمت کیسے کرتے ہیں۔ دوران تلاش کچھ کہانیاں آپ کی شخصیت اور ذہنیت پر بنیادی طور پر اثر انداز ہوجاتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نہ صرف ایک سیاسی جماعت ہے بلکہ یہ خود ایک قوت اور ادارے کی طرح ہے۔ لوگوں کا اپنی جماعت اور قیادت سے جذباتی تعلق ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت جو اپنے قیام کے آغاز سے ہی اپنی وراثت، روایات اور اصولوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک حقیقی جیالا ذہنیت تب قائم ہوتی ہے جب ایک عام فرد جس نے کسی نہ کسی طرح اپنے لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن نہ کرسکا، اور یہی وہ جگہ ہے جہاں پیپلز پارٹی احترام اور وقار کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیئے آتی ہے۔
میں بچپن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری سے ملا ہوں۔ بدقسمتی سے، ایک تجربہ کار صحافی کا بیٹا ہونے کے ناطے، میرے پاس ان سیاسی ماحول میں رہنے کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا جہاں ہم نے ظلم، مظاہروں اور جان بوجھ کر پیچھے دھکیلنے کے واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔ قائدین نے درپیش مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دکھا کر ایک مثال قائم کی ہے جبکہ، وہ حالات پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہوتے اور اس کی وجہ محض اپنے بیانیے اور عقائد پر قائم رہنا ہے۔ ان کے پاس شکست قبول کرنے یا جھکنے کا انتخاب تھا لیکن انہوں نے اپنا سر بلند رکھنے کا انتخاب کیا اور ہواؤں کے خلاف اپنا سفر جاری رکھا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہی وجہ پیپلز پارٹی کو اس ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف بناتا ہے۔
ایک ایسی جماعت جہاں لوگ ہم آہنگی، سیکولرازم، بھٹو ازم اور جیالوں کے یکساں نظریات کے حامل مختلف ثقافتوں، زبانوں، ذات پات اور عقیدے کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے مشکل وقت میں عام لوگوں کے ساتھ جس گرمجوشی اور مہربانی کا مظاہرہ کیا اس نے ایک عام آدمی کو جیالوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے سیاست کے اندر مفاہمت کے لیے معاملات پر سمجھوتے کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن شہید قائدین کے قائم کردہ جمہوری اصولوں کے مطابق معاملات اب بھی برقرار ہیں۔
اگر ہم پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو تقریباً ہر لیڈر کو جیل میں ڈالا گیا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور کئی دہائیوں کے بعد بالآخر سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیا کہ یہ غیر منصفانہ مقدمہ تھا۔ مرتضیٰ بھٹو کا قتل تاحال معمہ ہے، محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ صدر زرداری ایک دہائی سے زائد عرصے تک قید رہے اور انہیں کوئی ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے عزت و وقار کے ساتھ رہا کیا گیا۔ میرے خیال میں اس ملک کے قائدین کے لیے یہ ایک ضروری تقدیر لکھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، ہر اس چیز کے بعد انہیں کردار کشی اور غیر ضروری آزمائشوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم، میں پیپلز پارٹی کے اندرونی مسائل کے بارے میں لکھتا رہا ہوں اور اب بھی یقین رکھتا ہوں کہ چیئرمین بلاول بھٹو ان مسائل کو دیکھیں گے اور اپنی سیاسی جماعت اور اراکین کے لیے جائز فیصلہ کریں گے۔ یہ سچ ہے کہ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں، اور ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔ جبکہ بعض اوقات ان فیصلوں کی تعریف کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اب صوبے کے اندر اقتدار کی سیاست کا مرکز بن چکی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے والی کوئی اور جمہوری قوت ہے۔ زیادہ تر بااثر حریف اب پیپلز پارٹی کے اراکین ہیں۔
حال ہی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آئینی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے عدلیہ اور متاثرہ لوگوں کو جلد نتائج، فیصلوں اور انصاف کی فراہمی کا فائدہ ہوگا۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب سے کم عمر چیئرمین ایک سمجھدار چیئرمین بن کر نکلے، وہ جوش و چنگاری جو لوگوں نے ان کی والدہ میں دیکھی تھی وہ آہستہ آہستہ لوگوں کے سامنے آرہی ہے۔
18 اکتوبر قریب ہے اور آئینی عدالتوں کے مطالبات عروج پر ہیں، مجھے نثار کھوڑو صدر پیپلز پارٹی (سندھ) کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو یاد آرہا ہے جو میں نے 2022 میں کیا تھا۔ جو میرے خیال میں جمہوری حریت پسندی کے ماضی کے تجربات کی عکاسی کرتا ہے اور بالآخر آئینی عدالتوں کی اہمیت کو روشن کرتا ہے۔
نثار کھوڑو نے کہا کہ “جب ہم شہداء کی بات کرتے ہیں تو ہم ان لوگوں کو نہیں بھول سکتے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے وقت اپنی جانیں دیں۔ یہ مارشل لاء کا دور تھا اور سیاسی سرگرمیاں سختی سے روک دی گئیں۔ تقریباً 3000 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ہم تباہ کن صورتحال میں تھے۔ پھر جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلی اور ہم میں سے اکثر نے خود کو جیل جانے کے لیے پیش کر دیا۔ ہمیں مختلف شہروں اور صوبوں سے لوگوں کے قتل کی معلومات مل رہی تھیں اور ہم اس ظلم کے خلاف احتجاج کرتے اور سنتے رہے ہیں۔ عوامی غم و غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد، سمری کورٹس تشکیل دی گئیں، اور ہم نے لوگوں کو اپنے دفاع کے حق سے محروم کیے جانے، فیصلے سنائے جانے کی کہانیاں سنی تھیں، اور یہ خصوصی طور پر پیپلز پارٹی کے اراکین اور ہمدردوں کو متاثر کرتی تھیں۔ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے باوجود ہم وکلاء تحریک کے مضبوط ترین اتحادی رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ 12 مئی کو جب پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس چوہدری افتخار نے کراچی میں بار کونسل سے خطاب کرنا تھا تو ہم معزز عدالتوں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں میں شامل تھے۔ 18 اکتوبر، 27 دسمبر یا 12 مئی، یہ پیپلز پارٹی اور ہم سب کے لیے اہم تاریخیں ہیں کیونکہ ملک بھر سے لوگ اپنی محبوب قائد کے استقبال کے لیے آئے تھے، اور باقی تاریخ ہے۔ محترمہ کی غلطی کیا تھی؟ وہ صرف ووٹنگ کے حقوق، انتخابی شفافیت اور عوام سے اپنا لیڈر منتخب کرنے کی اہلیت کی درخواست کر رہی تھیں۔ ہم محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں اس لڑائی کے عمل سے گزرے۔ یہ جدوجہد پیپلز پارٹی کی تاریخ کا حصہ ہے اور اسے کتابوں اور اخبارات میں درج کیا جائے گا۔ ہم کارکنوں کے لیے ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بلاول بھٹو تک ہماری قیادت نے مثال قائم کی ہیں۔ اتھارٹی کے آگے سر تسلیم خم کرنے یا اقتدار کے ایوانوں سے مدد لینے کے بجائے، محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جان دینے کا فیصلہ کیا تاکہ ہم سب لوگ زندہ رہیں”۔
نثار کھوڑو کے بیانات پیپلز پارٹی کے جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کے پارٹی رہنماؤں اور اراکین کے لیے کٹھن وقت کو یاد کرتے ہیں۔ میری سیاسی سوچ پیپلز پارٹی کی حامی رہی ہے۔ اس کی وجہ محض حقائق کو دیکھنے اور سیاسی کرداروں کو قتل کرنے کے لیے پروپیگنڈے کی تشکیل میں میری زندگی کے اپنے تجربات ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے ملکی و سیاسی سسٹم میں کئی بے ضابطگیاں ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ قوم کی خدمت اور فراہمی کو یقینی بنانے کے لیئے یہ کرنا ضروری ہے۔
جن نسلوں نے پیپلز پارٹی کی سیاست کو قریب سے دیکھا ہے وہ تسلیم کریں گے کہ سندھ کے لوگوں کے لیے پیپلز پارٹی سے بہتر کوئی اور سیاسی انتخاب نہیں ہے۔
صوبائی سیاسی میدان کی حالیہ پیش رفت میں جہاں ایک طرف ہم سن رہے ہیں کہ چیئرمین نے سردار محمد بخش مہر کو صوبے کا آئندہ وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیالے اور پارٹی کے ارکان اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ میری رائے میں ایک نواب صوبہ سندھ کو برقرار نہیں رکھ سکتا، نا سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی حکومت کر سکتا ہے۔ وہیں دوسری جانب اراکین آئندہ وزیراعلیٰ کے لیے فریال تالپور کا نام تجویز کرنے پر آمادہ ہیں۔
میں چیئرمین سے یہ بھی درخواست کروں گا کہ وہ کراچی سے کشمور تک اپنی جماعت کے ہر اراکین صوبائی و قومی اسیمبلی سے ذاتی طور پر ملاقات کریں اور پھر فیصلے کا جائزہ لیں۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی پارٹی کے اندر دراڑیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں لیکن میں یہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ وہ غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اقدامات کر رہے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی سندھ کے اراکین کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں اسی لیئے ان کی تعریف نہ کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگا۔
حال ہی میں مراد علی شاہ نے کراچی پریس کلب کا دورہ کیا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ان کے اندرونی حریف ان کے ساتھ تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ غلطیوں کو سدھارنے کے لیے تیار ہیں۔اس دن میں اپنے سینئرز سے درخواست کرتا رہا ہوں کہ ہمیں سوال و جواب کے سیشن کا موقع دیا جائے، لیکن انہوں نے وقت کی کمی کی وجہ سے انکار کر دیا۔ ایک اور اہم بات جس کا انہوں نے ذکر کیا وہ یہ ہے کہ میڈیا کو غلط معلومات شائع یا پھیلانا نہیں چاہیے۔ اس کے لیئے میرا جواب سادہ ہے کہ جناب، ہم جانتے ہیں کہ پچھلے اور موجودہ دور میں کیا ہوا ہے اور کیا کیا گیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے اراکین بیشک سیاسی حریف ہوں وہ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے ہمارے ساتھ نہیں اور یہی ہماری کمی ہے۔ جس دن انہوں نے ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا وہ دن انصاف کا دن ہوگا۔
یہ درست ہے کہ مراد علی شاہ عام آدمی سے وزیر اعلیٰ کے تخت تک پہنچے ہیں اور میں سمجھتا تھا کہ وہ جمہوری وزیر اعلیٰ ثابت ہوئے لیکن وہ بدقسمتی سے صوبائی اقتدار کی راہداریوں میں کہیں کھو گئے ہیں۔ تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ ہموار انتظامیہ کے لیے تھوڑی لچک ضروری ہے لیکن منتخب نمائندوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کی پوری سیاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
مثال کے طور پر، صفورا ٹاؤن کے چئیرمین راشد خاصخیلی، میں میونسپل کمشنر منور ملاح اور ان کے درمیان جاری مسائل پر وضاحت طلب کرنا چاہتا تھا، بدقسمتی سے، انہوں نے میرا فون وصول نہیں کیا۔ منور ملاح وہ موصوف جنہیں جناب بجاری وزیراعلی کے پی ایس کی حمایت حاصل ہے۔
راشد پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندے اور پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کراچی ڈویژن کے صدر ہیں۔ جاری مسئلہ باجاری کے حمایت یافتہ بیوروکریٹ اور پارٹی کے ایک منتخب نمائندے کے درمیان طاقت کی جنگ ہے۔ وہ چیئرمین صفورا ٹاؤن کے فیصلوں پر حاوی رہے ہیں، چاہے ٹیکس وصولی، انتظامیہ اور فنڈز کے استعمال کا معاملہ ہو۔ وہ اپنے شہر کے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے اندر مسائل کے بارے میں اپنے اراکین سے شکایت کرتے رہے ہیں۔ ایک منتخب نمائندہ جسے صرف وزیراعلیٰ کے پی ایس کی پشت پناہی کی وجہ سے میونسپل کمشنر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ان حالات میں جہاں ایک شخص جس نے ابھی ابھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے اور اسے پہلا چیلنج جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اس کی اپنی سیاسی جماعت کی حکومت کی وجہ سے ہے۔ یہ صرف ایک مثال کا ذکر کرنا ہے. وزیراعلیٰ یا ان کے حمایت یافتہ لوگوں کی طرف سے بہت سارے مسائل، اور مداخلتیں ہیں جنہیں ہم ثبوت کی کمی کی وجہ سے بیان نہیں کر سکتے۔