اسلام آباد (ویب ڈیسک): جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ہفتے کے روز حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے کی کوششوں کا آغاز کیا اور چند گھنٹوں کے اندر وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان سے ملاقاتیں کیں۔ رپورٹ کے مطابق دونوں اطراف سے ان کے اقدام پر ’مثبت ردِ عمل‘ ظاہر کیا گیا جس کا مقصد متحارب فریقوں کو انتخابات کے معاملے پر مذاکرات کے قریب لانا تھا۔جماعت اسلامی کی ایک پریس ریلیز کے مطابق سراج الحق نے پہلے ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم شہباز سے ملاقات کی اور بعد میں عمران خان سے زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔
پارٹی ذرائع زمان پارک میٹنگ کو دونوں جماعتوں کے درمیان ممکنہ مشاورت کے راستے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جس کے دوران عمران خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ہمیشہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن صرف بدعنوان اور قومی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ نہیں۔
ملاقات کے دوران، سراج الحق نے تجویز پیش کی کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور پورے ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لیے وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے۔
عمران خان، کے چیف آف اسٹاف سینیٹر شبلی فراز ان کے ہمراہ تھے، چیئرمین پی ٹی آئی نے جماعت کے سربراہ کے ساتھ ملک بھر کی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال کے ساتھ ساتھ موجودہ پی ڈی ایم اور پنجاب نگراں حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
دونوں جماعتوں نے مستقل بنیادوں پر مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
جماعت اسلامی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر امیر جماعت نے عید کے بعد پی پی پی کے رہنما آصف زرداری سے ملاقات کرنے کا ارادہ کیا ہے اور آئندہ دو ہفتوں میں ایک پیش رفت کی توقع ہے۔
قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے وہ 23 کروڑ پاکستانی شہریوں کے ذمہ دار ہیں لہذا انہیں ’موجودہ بحرانوں کا حل تلاش کرنے کے لیے کھلے دل کے ساتھ دوسروں سے آگے آنا چاہیے‘۔
وزیر اعظم شہباز اور عمران خان دونوں نےسراج الحق کی کوششوں کو سراہا اور انہیں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ انتخابات ملک کو موجودہ معاشی، سیاسی اور آئینی بحران سے نکالنے کا راستہ ہیں۔
جماعت کی پریس ریلیز کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ اگر جماعت اسلامی قومی اہمیت کے معاملات پر مثبت کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ہر کسی کو ضد سے باہر آنا چاہیے اور کچھ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔