لاہور (ویب ڈیسک): لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے زرعی اراضی فوج کو دینے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کردیا۔ جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ سنگل بینچ کے فیصلے میں تضاد ہے، درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے، زرعی پالیسیوں کو ریگولیٹ کرنا عدالتوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔
پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ سنگل بینچ نے فوج کو زمین دینےکے نوٹیفکیشن کو قانون کے برعکس کالعدم قرار دیا، قانون کے مطابق نگران حکومت سابقہ حکومت کےکسی نامکمل اقدام یا پالیسی کی تکمیل کرسکتی ہے، یہ منصوبہ نگران حکومت نے نہیں اس سے پہلے منتخب حکومت نے شروع کیا تھا۔
رواں سال 8 فروری کو پاکستان آرمی کے ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹجک پروجیکٹس نے پنجاب میں بورڈ آف ریونیو کو خط لکھا جس میں پنجاب میں 10 لاکھ ایکڑ تک کی سرکاری اراضی ”کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ“ کے لیے دینے کی درخواست کی گئی۔
اس خط میں پاکستانی فوج نے تیل اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو پاکستان کی معیشت اور اس کے زرعی شعبے کے لیے ایک سنگین چیلنج قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اسے ”بیکار بنجر زمینیں“ تیار کرنے کا تجربہ ہے۔
اس منصوبے کے لیے فوج نے 10 سے 15 ہزار ایکڑ سیراب شدہ اراضی کو فوری طور پر جاری کرنے ، اس کے بعد یکم مارچ تک 1لاکھ ایکڑ اور پھر اپریل تک بقیہ 10 لاکھ ایکڑ اراضی جاری کرنے کی تجویز پیش کی۔
ایک ماہ بعد پنجاب کے گورنر اور پاکستانی فوج نے ایک مشترکہ منصوبے پر دستخط کیے جس کے تحت پنجاب میں 10 لاکھ ایکڑ تک کی سرکاری اراضی فوج کو کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے 20 سال کی مدت کے لیے لیز پر دی جائے گی۔
اس معاہدے میں منافع کی تقسیم کے طریقہ کار کو بھی حتمی شکل دی گئی، جس کے تحت اس منصوبے سے حاصل ہونے والے منافع کا 20 فیصد تحقیق اور ترقی کے لیے استعمال کیا جائےگا، جب کہ بقیہ منافع کو حکومت پنجاب اور فوج کے درمیان برابر تقسیم کیا جائے گا۔
اس حوالے سے پنجاب حکومت کے نوٹیفکیشن کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے وکلا نے ایک این جی او کی جانب سے حکومت کےاس فیصلے کو چیلنج کیا اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ نگران حکومت کی جانب سے اراضی کی فراہمی ”غیر آئینی اور غیر قانونی“ تھی، کیونکہ نگران حکومت کا دائرہ کار روزمرہ کے کام کرنے تک محدود ہے اور یہ کہ پاکستان کے آئین نے فوج کو تجارتی منصوبے شروع کرنے کی اجازت نہیں دی۔
مارچ میں لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سرکاری زمین فوج کو کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے 30 سال کی لیز پر دینے سے روک دیا۔
جون میں 134 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ایک رکنی بینچ نے لکھا کہ نہ تو پنجاب کی عبوری حکومت کے پاس کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمین الاٹ کرنے کا آئینی مینڈیٹ ہےاور نہ ہی پاکستان کی مسلح افواج کو کارپوریٹ فارمنگ کرنےکا آئینی اور قانونی مینڈیٹ حاصل ہے۔
اس فیصلے میں جسٹس عابد حسین چٹھہ نے لکھا کہ فوج کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے الاٹ کی گئی زمین پنجاب حکومت کو واپس کی جائےاور یہ کہ مسلح افواج کے ہر رکن کو اس کے آئینی اور قانونی مینڈیٹ اور ممکنہ خلاف ورزیوں کے نتائج کے متعلق روشناس کرانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے حساب لگایا کہ صوبے میں 10 لاکھ ایکڑ اراضی ”پنجاب کے کل رقبے کا تقریباً 2فیصد“ بنتی ہے۔
پنجاب حکومت نے سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر آج عدالت نے فیصلہ سنادیا ہے۔