نیویارک (ہیلتھ ڈیسک): عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماری ڈینگی وائرس کے پھیلنے میں مجموعی طور پر 10 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور آنے والے وقت میں یہ مزید بڑھ سکتا ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ سال 2000 میں دنیا بھر میں ڈینگی کے رپورٹ شدہ کیسز کی تعداد 5 لاکھ تک جو کہ 2019 میں بڑھ کر 25 لاکھ سے زائد ہوگئی لیکن رواں برس ان کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔
ادارے کے مطابق رپورٹ ہونے والے کیسز نامکمل ہوسکتے ہیں، اصل تعداد ان سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق مجموعی طور پر پچھلی نسل کے مقابلے نئی نسل میں ڈینگی کے 10 فیصد کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے جو کہ خطرناک انتباہ ہے۔
اقوام متحدہ (یو این) کے ذیلی ادارے کے مطابق شدید اور بار بار ہونے والی بارشوں، نمی، شدید گرمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ڈینگی پھیلانے کا سبب بننے والے مچھروں کے انداز میں ہونے والی تبدیلیاں ڈینگی کا سبب بن رہی ہیں۔
ساتھ ہی ادارے نے یہ بھی کہا کہ دنیا بھر کا کمزور نظام صحت اور ڈینگی جیسی وائرسز کی نگرانی نہ کرنے کی مناسب مانیٹرنگ بھی اس بیماری کے بڑھنے کا سبب بن رہی ہے۔
اس سے قبل اکتوبر 2023 میں عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا تھا کہ رواں برس ڈینگی بعض ممالک میں وبا کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 20 ہزار افراد ڈینگی سے ہلاک ہوتے ہیں اور ہر سال تقریبا 45 کروڑ افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں، تاہم ڈینگی سے متعلق مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
اس بیماری کی ابتدائی علامات بیمار ہونے کے بعد 4 سے 6 دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر 10 دن تک برقرار رہتی ہیں۔
ان علامات میں اچانک تیز بخار، شدید سردرد، آنکھوں کے پیچھے درد، جوڑوں اور مسلز میں شدید تکلیف، تھکاوٹ، قے، متلی، جلد پر خارش (جو بخار ہونے کے بعد 2 سے 5 دن میں ہوتی ہے) خون کا معمولی اخراج (ناک، مسوڑوں سے یا آسانی سے خراشیں پڑنا) قابل ذکر ہیں۔
ڈینگی کے ایک فیصد سے بھی کم کیسز میں مریضوں کو انتہائی شدید علامات اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں سے بعض اوقات بچوں کو ہڈیوں کا بخار بھی ہوجاتا ہے، جس سے ان کی حالت انتہائی تشویش ناک بھی ہوسکتی ہے۔
ڈینگی کی کوئی خصوصی ادویات دستیاب نہیں ہیں، تاہم ڈاکٹرز بخار سمیت دیگر بیماریوں کی علامات کے حساب سے ادویات کے ذریعے مریض کا علاج کرتے ہیں۔