نیو دہلی (ویب ڈیسک): بھارت کے 16 سالہ لڑکی سروشتی سدھیر نے مسلسل 5 دن رقص کرکے طویل ترین ڈانس میراتھن کا ریکارڈ توڑ دیا اور گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کروا لیا۔گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کی ویب سائٹ کے مطابق بھارتی طالبہ کا ڈانس میراتھون اُن کے اپنے کالج کے آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق ’سروشتی رقص کے دوران بہت تھک گئی تھی، لیکن ان کے والدین ہر وقت ان کے ساتھ موجود تھے، رقص کے دوران ان کے چہرے پر پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا تاکہ وہ تازہ دم رہے۔ ’
نو عمر بھارتی طالبہ سروشتی نے 29 مئی کی صبح کو رقص کرنا شروع کیا اور مسلسل 127 گھنٹے 3 جون کی دوپہر تک جاری رہا۔
جیسے ہی رقص کرنے کا وقت ختم ہوا وہ پورا دن سوتی رہی۔
اس ریکارڈ کو حاصل کرنے کے لیے رقص کا ایک مخصوص اسٹائل اور معیار منتخب کیا گیا تھا۔
سروشتی نے ریکارڈ اپنے نام کرنے کے لیے بھارتی کلاسیکل رقص ’کتھک‘ کا انتخاب کیا۔
سروشتی کا کہنا تھا کہ اس رقص کے ذریعے بھارت کی نمائندگی کرنا ان کا خواب تھا، جو آج پورا ہوچکا ہے، ’میں اپنی ہندوستانی ثقافت کو فروغ دینا چاہتی تھی‘۔
سروشتی کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے انہوں نے 5 دنوں تک نیند پر قابو پالیا تھا۔
بڑا ریکارڈ اپنے نام کرنے کرنے کے لیے سروشتی نے سخت تربیت حاصل کی۔
سروشتی کہتی ہیں کہ انہوں نے ریکارڈ بنانے سے قبل 15 ماہ تک سخت تربیت حاصل کی، اس دوران وہ 4 گھنٹے مراقبہ (meditation) کرتی، 6 گھنٹے رقص کرتی، اور 3 گھنٹے کی دیگر ورزش کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ روانہ رات 10 بجے سو تی اور روزانہ صبح 3 بجے اٹھتی تھی، ہر رات تقریباً 5 گھنٹے کی نیند پوری کرتی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سروشتی نے تیاری کے دوران پہلے ہی گھر پر 126 گھنٹے کی دو ڈانس میراتھن کی پریکٹس کرچکی تھی، تاکہ اصل مقابلے والے دن وہ یہ کارنامہ سرانجام دے سکے۔
اس سے قبل نیپال سے تعلق رکھنے والی رقاصہ بندنا نیپال نے 2018 میں 126 گھنٹے بغیر رُکے رقص کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
بھارتی طالبہ نے اپنے آپ کو تازہ دم اور چاقوچوبند رکھنےکے لیے کافی، چاکلیٹ اور ناریل کا پانی بھی پیا تھا۔
سروشتی کہتی ہیں کہ ’رقص کے دوران مجھے لگا کہ میرا جسم حرکت کرنے کے قابل نہیں رہا، مجھے لگا میرا جسم جم گیا ہے، اور شدید تکلیف میں تھی، لیکن میرا دماغ میرے مقصد پر قائم تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ سخت تربیت کی وجہ سے میں اپنے دماغ اور جسم میں ہونے والی تبدیلیوں سے واقف تھی اس لیے میں آخر تک پرسکون تھی۔