کراچی (ہیلتھ ڈیسک): ہزاروں فٹ گہرے سمندر میں ایک چھوٹی سی آبدوز میں پھنس جانے کا تصور ہی دل دہلانے والا ہے۔لاپتا ہوجانے والی ٹائٹن آبدوز کی تلاش پانچویں روز بھی جاری ہے جہاں پاکستانی نژاد سیاحوں سمیت 5 افراد موجود ہیں۔ان افراد کی حالت کے بارے میں اب تک کسی کو کچھ نہیں معلوم، تاہم سائنسدان جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آبدوز میں موجود ان افراد کی صحت کیسی ہوگی؟وقت انتہائی تیزی سے گزر رہا ہے، سائنسدانوں اور ریسکیو ورکرز کے لیے ہر ایک منٹ بہت قیمتی ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ آبدوز میں اب تک صرف 10 گھنٹے کی آکسیجن باقی ہے۔
یاد رہے کہ اتوار کو ٹائی ٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے جانے والی 22 فٹ کی چھوٹی آبدوز سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا، جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر)گہرائی میں موجود ہے۔
ٹائٹن نامی آبدوز امریکا میں قائم کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشن چلاتی ہے، جس کی خصوصیات کے مطابق اسے 96 گھنٹے تک زیر آب رہنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین اور پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد، ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی ایکسپلورر پال ہنری نارجیولٹ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش اس آبدوز پر سوار تھے جو ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب لاپتا ہوئی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی میموریل یونیورسٹی کے ہائپر بارک میڈیسن کے ماہر ڈاکٹر کین لیڈز کہتے ہیں آبدوز میں سوار افراد کے لیے آکسیجن کا ختم ہونا ہی واحد خطرہ نہیں ہے۔