اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت اور مقدمہ اخراج کی درخواستیں مسترد کرنےکا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 14 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں مقدمے میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کا اطلاق ہوتا ہے، ہائیکورٹ 23 اکتوبر کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کےفیصلے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کا کیس ہےکہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کوڈ کر کے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو بھجوایا، چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم سائفر کو وصول کیا اور بظاہر گم کر دیا۔
عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ استغاثہ کے مطابق سائفر کے مندرجات کو ٹوئسٹ کر کے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا، دفتر خارجہ کے سابق اور موجودہ افسران بالخصوص سائفر بھیجنے والے اسد مجید کے بیانات ریکارڈ پر ہیں، دفتر خارجہ کے افسران کے بیانات سے واضح ہےکہ اس میں کوئی غیرملکی سازش شامل نہیں ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کہ شفاف ٹرائل ملزم کا بنیادی حق ہے، آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے، ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز سے کسی قسم کا تعصب ظاہر نہیں ہوتا۔
سائفر کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت مسترد کر دی
ہائیکورٹ کے فیصلے م؛یں کہا گیا ہے کہ عدالت میں پیش دستاویزات کے مطابق دفتر خارجہ کی پالیسی واضح ہے، پالیسی کے مطابق سائفرکلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے جسےغیرمجازافراد سے شیئرنہیں کیا جا سکتا، سائفر کو کچھ وقت کے بعد واپس فارن آفس جانا ہوتا ہے، وکیل کےمطابق ملزم پابند تھےکہ حکومت گرانےکی غیرملکی سازش عوام کو بتاتے۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت گرانے کی سازش سے عوام کو آگاہ کرنے دلیل میں وزن نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی بطوروزیراعظم فرائض انجام دینے کے بجائے سیاسی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفرکیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے آئین کے آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آئین کاآرٹیکل248 بطو روزیراعظم فرائض کی ادائیگی پر استثنیٰ سے متعلق ہے، پٹیشنرکا سائفر سے متعلق سیاسی اجتماع سے خطاب بطور وزیراعظم اداکی جانے والی ذمہ داریوں میں نہیں آتا۔