کراچی (ہیلتھ ڈیسک):دنیا بھر میں ڈاکٹر حضرات مختلف بیماریوں کے لیے ادویات تجویز کرتے ہیں اور کبھی انہیں پانی اور اکثر انہیں دودھ کے ساتھ لینے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ صحت کو فوری بحال کیا جا سکے۔لیکن کیا دوا کو دودھ کے ساتھ لینا درست ہے؟ اور ایسا مشورہ کیوں دیا جاتا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو اکثر افراد سوچتے ہیں تو یہاں پر ان کے جوابات پیش کیے جارہے ہیں۔
یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ دواؤں کو خالی پیٹ لینے سے منع کیا جاتا ہے تاکہ ان میں موجود کیمیکلز معدے میں تیزابیت کا باعث نہ بنیں۔
اسی طرح ادویات کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں ان میں ایک عام دوا جبکہ ایک اینٹی بائیوٹکس ہوتی ہیں، اینٹی بائیوٹکس کبھی بھی وائرل انفیکشن کے لیے نہیں دی جاتی یہ ہمیشہ بیکٹیریل انفیکشنز کے لیے تجویزکی جاتی ہیں۔
دواؤں کو دودھ کے ساتھ لینے کا مشورہ اس لیے دیا جاتا ہے کیوںکہ خالی پیٹ دوا معدے کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، اگر دودھ یا کوئی غذا کھائی تو غذا دوا کو طور پر جذب ہونے میں مدد دیتی ہے اور معدے کو تیزابیت سے بچاتی ہے۔
زبانی طور پر کھائی جانے والی دوائیں یا اینٹی بائیوٹکس کسی شخص کے لیے اس وقت ہی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں جب انہیں بہتر انداز میں جذب کیا جائے تاکہ یہ خون کے دھارے میں شامل ہو کر انفکشنز کو ختم کر سکے۔
تاہم کئی عوامل ہیں جو جسم میں ادویات کی جذب کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں، ان میں معدے کی تیزابیت، چربی والی غذائیں اور کیلشیئم جیسے عناصر شامل ہیں، اینٹی بائیوٹکس کی ایک کلاس ایسی ہے جو دودھ کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتی ہے۔
کیلشیئم اور میگنیشیئم جیسی معدنیات جو دودھ میں پائی جاتی ہیں وہ ادویات یا اینٹی بائیوٹکس کو جسم میں جذب ہونے سے روکتی ہیں۔
اسی طرح کافی، چائے یا جوس میں بھی مختلف قسم کے مرکبات ہوتے ہیں، جیسے کافی میں کیفین، جو دوا کے جذب کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس لیے سب سے بہتر یہ ہے کہ دوا تازہ پانی کے ساتھ لی جائے کیونکہ پانی میں ایسے مرکبات نہیں ہوتے جو دوا کے جذب میں ہونے سے روکتے ہیں۔