کوئٹہ – پشاور (ہیلتھ ڈیسک): ملک میں رواں برس کا تیسرا کیس سامنے آنے کے صرف ایک روز بعد ہی جمعرات کو ملک میں پولیو وائرس کے مزید 2 کیسز سامنے آگئے۔انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کی پولیو لیبارٹری کے ایک عہدیدار کے مطابق بلوچستان کے ڈیرہ بگٹی اور خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے حاصل کیے گئے سیوریج نمونوں میں خطرناک وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سیوریج کے نمونوں میں پائے جانے والے دونوں وائرس افغانستان کے پولیو وائرس سے مماثلت رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے خلاف جاری مہم کی کامیابی کا تعین کرنے کے لیے کسی علاقے کے سیوریج کے پانی کے سیمپل بنیادی پیرامیٹر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیوریج نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ اس علاقے میں بچوں کی قوت مدافعت میں کمی آئی ہے اور وہ اس خطرناک بیماری میں مبتلا ہونے کے سنگین خطرے سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پولیو پروگرام ہر ماہ ملک بھر میں پولیو وائرس کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے 114 ماحولیاتی مقامات پر ٹیسٹ کر رہا ہے، زیادہ خطرے کی زد میں آنے والے علاقوں میں نگرانی کو مزید بڑھانے کے لیے پاکستان پولیو پروگرام وقتاً فوقتاً متعدد مقامات سے اضافی سیوریج نمونے حاصل کر رہا ہے۔
پولیو ایک انتہائی متعدی اور لاعلاج مرض ہے جو بنیادی طور پر 5 سال سے کم عمر بچوں کو متاثر کرتا ہے، یہ وائرس اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے، وہ مستقل معذوری یا بعض صورتوں میں موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
پولیو وائرس سے بچوں کے حفاظت کا سب سے مؤثر طریقہ ویکسینیشن ہے، پولیو ویکسین لاکھوں بچوں کو خطرناک وائرس سے بچا رہی ہے اور اس کی وجہ سے دنیا کے تقریباً تمام ممالک پولیو سے پاک ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس رپورٹ ہوا تھا جب کہ یکم اگست کو بھی ضلع بنوں میں ہی پولیو کا دوسرا کیس رپورٹ ہوا تھا جہاں 3 سالہ بچہ پولیو وائرس کی وجہ سے مفلوج ہو گیا تھا۔
اس سے قبل مارچ میں پاکستان میں رواں سال کا پہلا پولیو کیس بھی اسی ضلع سے رپورٹ ہوا جہاں 3 سالہ بچہ مستقل معذوری کا باعث بننے والے وائرس کا شکار ہوا۔
سال کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا کہنا تھا کہ جنوبی خیبرپختونخوا میں 7 اضلاع ہیں، جن میں ڈیرہ اسمٰعیل خان، لکی مروت، ٹانک، بنوں، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان شامل ہیں، جہاں یہ وائرس موجود ہے، ان علاقوں میں ویکسی نیشن مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ علاقے 2022 میں بھی پولیو وائرس کا مرکز تھے، جہاں گزشتہ سال 20 کیسز جنوبی خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوئے تھے، ان میں سے 17 متاثرہ بچوں کا تعلق شمالی وزیرستان، 2 کا تعلق لکی مروت اور ایک کا جنوبی وزیرستان سے تھا۔
اگست میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا تھا کہ جنوری 2021 سے اب تک تمام رپورٹ شدہ تمام کیسز کا تعلق جنوبی خیبر پختونخوا کے پولیو سے متاثرہ سات اضلاع سے تھا۔
یاد رہے کہ غیر ملکی وفود نے 2022 میں پولیو کےخاتمے کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے کی گئی پیش رفت کو سراہا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ 7 اضلاع میں موجود پولیو وائرس کا خاتمہ جلد ممکن ہوگا۔
رواں برس جنوری میں کراچی کے بعد ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے دو الگ الگ مقامات سے ماحولیاتی نمونوں میں پہلی بار پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی تھی، اور مزید دو نمونوں میں پولیو کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، جس کے بعد حکام نے شہر کی 26 یونین کونسلوں میں ویکسی نیشن مہم شروع کی ہے۔