کراچی (شوبز ڈیسک): موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے عہد کا وہ مسئلہ ہے جو ہر گزرتے برس کے ساتھ تشویشناک ہو رہا ہے اور زمین پر اس کے اثرات بتدریج نمایاں ہو رہے ہیں۔تو اگر ہم نے حالات بہتر بنانے کے لیے کام نہ کیا تو زمین کا کیا حال ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں ٹھوس انداز سے کچھ کہنا ممکن نہیں کیونکہ ابھی تو صرف اندازے لگائے جا سکتے ہیں، مگر ہالی وڈ کی ایک سائنس فکشن فلم میں اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم میں موسمیاتی تبدیلیوں کا نام نہیں لیا گیا مگر جو حالات دکھائے گئے وہ موسمیاتی بحران سے منسلک کیے جا سکتے ہیں۔وہ فلم جس کو کم از کم ایک بار ضرور دیکھنا چاہیے. یہ فلم انٹرسٹیلر ہے جو 2014 میں ریلیز ہوئی تھی جس کی ہدایات کرسٹوفر نولان نے دی تھیں اور اس کی کہانی بھی انہوں نے اپنے بھائی جوناتھن نولان کے ساتھ ملکر تحریر کی۔اس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ وارم ہول کے سائنس فکشن تصور کو دکھایا گیا ہے۔
فلم میں Matthew McConaughey، Anne Hathaway، جیسیکا چیسٹن اور دیگر نے نمایاں کردار ادا کیے تھے۔
اسے ہر دور کی بہترین سائنس فکشن فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔قدرتی آفات، قحط اور خشک سالی کے باعث زمین انسانوں کے لیے قابل رہائش نہیں رہتی اور انسانیت کے خاتمے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔اسی کو دیکھتے ہوئے ناسا کے ایک سابق پائلٹ کوپر کو ایک وارم ہول کے ذریعے کسی اور کہکشاں میں قابل رہائش سیارہ ڈھونڈنے کا مشن سونپا جاتا ہے۔کوپر کو بتایا جاتا ہے کہ ناسا نے ماضی میں ایک اور گروپ کو قابل رہائش سیارہ ڈھونڈنے کے لیے وارم ہول کے ذریعے بھیجا تھا مگر وہ ٹیم لاپتہ ہوگئی۔
کہانی کے مطابق وارم ہول بنیادی طور پر ایک ایسا دروازہ ہے جس سے گزر کر انسان خلا میں زمین جیسے سیاروں کا پتا لگا سکتے ہیں۔
کوپر کے خلائی مشن کو انسانیت کے لیے آخری موقع قرار دیا جاتا ہے اور انہیں زحل کے قریب دریافت کیے جانے والے وارم ہول کی جانب بھیجا جاتا ہے۔کوپر اس مشن کے لیے اپنے بچوں کو چھوڑ کر 3 ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوتا ہے اور وارم ہول سے گزر کر ایک سیارے میں پہنچتا ہے جو بہت بڑے سمندر پر مشتمل ہوتا ہے، جہاں سابقہ مشن کے اسپیس شپ کا ملبہ بھی ملتا ہے۔
وہاں ایک حادثے میں اس کا ایک ساتھی مارا جاتا ہے اور باقی ٹیم اسپیس شپ پر پہنچتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ چند گھنٹوں کی مہم کے دوران زمینی حساب سے 23 سال گزر چکے ہیں، جبکہ اسپیس شپ میں موجود ایک ساتھی بوڑھا ہو چکا ہے۔
دوسرے سیارے میں کوپر اور اس کی ٹیم سابقہ مشن میں شامل ایک ماہر Mann کو دریافت کرتی ہے جس کے بعد کہانی میں دلچسپ رخ آتا ہے کیونکہ یہ انکشاف ہوتا ہے کہ Mann جان بوجھ کر اس ٹیم کو وہاں لایا تھا تاکہ خود نکل سکے۔
وہاں کی مشکلات سے نمٹنے کر نکلتے ہوئے اسپیس شپ قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور بلیک ہول میں چلا جاتا ہے۔اس کے بعد کیا ہوتا ہے اور یہ مہم کس حد تک کامیاب ہوتی ہے، اس کے لیے فلم کو دیکھنا چاہیے۔
169 منٹ کی اس سائنس فکشن فلم کی کہانی کا سسپنس آپ کو اسکرین سے نظر ہٹانے نہیں دے گا اور آپ اسے بار بار دیکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان نے فلم کی سائنسی کہانی کو ہر ممکن تک مستند بنانے کی کوشش کی تھی اور نوبیل انعام یافتہ ماہر Kip Thorne سے مشاورت کرکے اسپیس ٹائم، بلیک ہول اور دیگر تفصیلات کو فلم کا حصہ بنایا۔
فلم کے کچھ سینز کے لیے ڈائریکٹر نے 500 ایکڑ رقبے پر مکئی کی فصل اگائی جسے بعد میں فروخت کیا گیا اور فلم پروڈکشن کمپنی کو اس سے منافع بھی ہوا۔
فلم کے روبوٹ کردار TARS حقیقت میں تیار کیا گیا تھا۔اس کے بیشتر سینز میں اسپیشل ایفیکٹس کا استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ وہ حقیقت میں وہاں موجود تھا۔وہ فلم جس کا جادو 3 دہائیوں سے سر چڑھ کر بول رہا ہے. بنیادی طور پر یہ ایک روبوٹ کی بجائے ایک پتلا تھا جسے Bill Irwin نے کنٹرول کیا۔
زحل کے قریب وارم ہوم کا خیال ماضی کی ایک فلم سے لیا گیا تھا.ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان ایک پرانی فلم 2001: A Space Odyssey سے بہت زیادہ متاثر تھے اور انٹرسٹیلر میں زحل کے قریب جس وارم ہول کا حوالہ دیا گیا وہ 2001: A Space Odyssey میں دکھایا جانا تھا۔مگر بعد میں زحل کی جگہ مشتری کو 2001: A Space Odyssey کا حصہ بنایا گیا۔
فلم کے برفانی سیارے کے لیے آئس لینڈ میں شوٹنگ کی گئی تھی اور وہاں کے برفانی پانی کے باعث اداکارہ Anne Hathaway ہایپوتھر سیا کی شکار ہوگئی تھیں اور مرنے کے قریب پہنچ گئی تھیں۔
فلم کی اصل کہانی بہت مختلف تھی اور اس کی ڈائریکشن بھی کرسٹوفر نولان کی بجائے اسٹیون اسپیلبرگ نے دینی تھی، اس کہانی کی متعدد تفصیلات کو کرسٹوفر نولان نے تبدیل کیا۔