بٹ گرام (ویب ڈیسک): خیبر پختونخوا کے ضلع بٹ گرام کے رہائشی غیر قانونی کنکشنز (کنڈا) اور بجلی کے نادہندگان کے خلاف جاری کارروائی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور ختم نبوت چوک کے قریب قراقرم ہائی وے کو بلاک کر دیا۔خیال رہے کہ 6 ستمبر کو نگران وزیر توانائی محمد علی نے بجلی چوری کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہوگی اور بل ادا نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک بجلی کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں گی، یہ فیصلہ بجلی کے اضافی بلوں پر ملک گیر مظاہروں کے بعد کیا گیا۔
اس کے بعد سے متعدد علاقوں میں بجلی چوری کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔
کارروائی اب بھی جاری ہے، تاہم بٹ گرام کے متعدد علاقوں (خاص طور پر اجمیرہ اور چپرگرام) کے رہائشی آج مقامی انتظامیہ کے اہلکاروں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، انہوں نے ابتدائی طور پر بٹ گرام کے مرکزی بازار میں مظاہرہ کیا اور بعد ازاں ختم نبوت چوک تک پہنچے اور قراقرم ہائی وے کے ایک حصے کو بلاک کر دیا۔
مظاہرے کی کوریج کرنے والے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی کے نمائندے نے رپورٹ کیا کہ مظاہرین نے بٹ گرام کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) تنویر الرحمن اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی ’غنڈاگردی‘ کو مسترد کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ’ڈپٹی کمشنر کی غنڈہ گردی نامنظور، واپڈا کی غنڈا گردی نامنظور‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
مظاہرین نے ڈی سی کے تبادلے کا بھی مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی نااہلی ضلع کو انتشار کی طرف لے جا رہی ہے۔
چپرگرام گاؤں کے کونسل چیئرمین شوکت حیات نے اظہار مذمت کیا کہ حکام نے ’زمینی حقائق‘ کو مدنظر رکھے بغیر پورے یونین کونسل کی بجلی منقطع کر دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حتی کہ ایسے صارفین کی بجلی بھی کاٹ دی گئی ہے جو باقاعدگی سے بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں اور ان کے کنکشنز قانونی ہیں۔
انہوں نے بٹ گرام کے ڈپٹی کمشنر کی مذمت کی، جس کو انہوں نے ’غریبوں پر اپنے متعصبانہ فیصلے مسلط کرنے کی کوشش قرار دیا جبکہ ضلع کے بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
شوکت حیات نے مطالبہ کیا کہ ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ کیا جانا چاہیے اور ایسے عقلمند شخص کو تعینات کرنا چاہیے جو ضلع کے معاملات کو بہتر طریقے سے چلا سکے، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مظاہرین کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ الائی خوڑ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی ٹرانسمیشن لائن کے ٹاور کو اکھاڑ پھینکیں گے۔
ایک سماجی اور سیاسی کارکن اقبال نے بھی اپنی تقریر کے دوران بٹ گرام کے ڈپٹی کمشنر پر تنقید کی، اور الزام عائد کیا کہ گزشتہ برس اجمیرہ میں افتتاح کیا گیا ایک منی مائیکرو ہائیڈل پاور پروجیکٹ غیر فعال ہے کیونکہ ڈی سی (پروجیکٹ) منظور نظر ٹھیکیدار کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں، جو چترال میں ان کے آبائی گاؤں سے تعلق رکھتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ علاقے کے دیگر عمائدین کے ساتھ اس معاملے کو اٹھانے کے لیے کئی بار ڈی سی کے دفتر کا دورہ کیا لیکن حکام نے ملاقات کرنے سے منع کر دیا، ہم نے ڈپٹی کمشنر سے بجلی کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں اس میں بہت کم دلچسپی ہے۔
اسی طرح جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اجمیرہ کے خالد خان نے دعویٰ کیا کہ کریک ڈاؤن کے دوران 20 ہزار سے زائد افراد کے بجلی کے کنکشنز منقطع کیے گئے ہیں، ان میں باقاعدگی سے بل ادا کرنے والے صارفین بھی شامل ہیں۔
مقامی رہائشی ایڈووکیٹ اقبال خان نے مقامی اور واپڈا حکام پر غیر قانونی کنکشنز کے خلاف کارروائی کے دوران رازداری کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ڈپٹی کمشنر نے غیر قانونی کنکشن اور نادہندگان کے خلاف کارروائی کے لیے اسسٹنٹ کمشنر اور واپڈا کے اہلکاروں کو گاؤں بھیجا، یہ ٹیم پختون رسم و رواج کے خلاف گھروں میں داخل ہوئی۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ پولیس لائنز، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور ضلعی انتظامیہ کے افسران نے بھی پیسکو کو ادائیگیاں کرنی ہیں، لیکن کوئی بھی ان سے پوچھنے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ وہ خود دوسروں کے احتساب میں ملوث ہیں، وہ قانون سے بالاتر ہیں۔
میڈیا اداروں کی جانب سے تبصرے کے لیے ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کیا گیا، لیکن انہوں نے فون کال کا جواب نہیں دیا۔